اس گلشن میں ہر روز نئے قانون بنائے جاتے ہیں
جو پنچھی دن کو قید ہوئے وہ شام اُڑائے جاتے ہیں
جینے کے لئے دو سانسیں بھی دشوار ہیں مزدوروں کیلئے
آمر آجر کی قبروں پر کیوں پھول چڑھائے جاتے ہیں
ہاں یاد ہیں وہ حالات ہمیں ، ہر موڑ پہ دھوکے کھائے ہیں
عادت ہے فریب کی پر ایسی خود جال بچھائے جاتے ہیں
ہم اندھے ہیں بے کار سہی ،یہ دیپ چراغاں رستے میں
سر پھوڑ نہ دیں آنکھوں والے ، بس دیپ جلائے جاتے ہیں
کچھ جینے کی ہے پابندی کچھ مرنے کی بندش عابد
یہ عمرِ رواں جاتی ہے کہاں ! ہم ساتھ نبھائے جاتے ہیں