خوشی سے غم ذیادہ کر لیا ہے
ہؤا جو استفادہ کر لیا ہے
مرغن سے اسے پابندیاں تھیں
سو کھانا ہم نے سادہ کر لیا ہے
گناہوں کی سکت باقی نہیں، سو
مدینے کا ارادہ کر لیا ہے
سزا سے بچ گئے استاد کی ہم
کہ مشقوں کا اعادہ کر لیا ہے
کھلانی تھی اسے بچّوں کو روٹی
سو ماں نے کیسا وعدہ کر لیا ہے
وزارت کے مزے لوٹے ہیں ڈٹ کر
خیانتداری جادہ کر لیا ہے
ابھی باقی ہے اس کے دل میں تنگی
اگرچہ گھر کشادہ کر لیا ہے
اسے دکھ جھیلنا ہے جس نے، اپنی
شرافت کو لبادہ کر لیا ہے
جسے حسرتؔ بنایا شاہ زادہ
اسی نے ہی پیادہ کر لیا ہے