اسی انتظار میں امید ٹوٹی ہے
قسم ہے اعتبار میں امید ٹوٹی ہے
سب وعدوں قسموں کو سامنے رکھا
ہر گنتی ، ہر شمار میں امید ٹوٹی ہے
اس کی راہ دیکھی ہے بھٹکا پھرا ہوں
فقط یادوں کے خمار میں امید ٹوٹی ہے
نہ مجبوری کوئی نہ بھول ہوئی اسے
ہاں اس کے اختیار میں امید ٹوٹی ہے
گلے شکوے بھی کس سے کروں عاؔمر
محبت ، عشق پیار میں امید ٹوٹی ہے