ٹو ٹنے کا بکھرنے کا
جمنے کا پگھلنے کا
کبھی آنسووں میں آئینہ دیکھیں
کبھی سپنوں میں چائینہ دیکھیں
کبھی کسی کو چاہنے کا
پھر چاہت کو چھپانے کا
ظاہراً نیک سا بننے کا
شوق نیک کہلانے کا
اسی کا نام زندگی ہے
اسی کا نام زندگی ہے
سوچوں میں کبھی گم سم سے
کبھی تم ہم سے کبھی ہم تم سے
بے مطلب سی باتوں میں
الجھے ہوئے خود کی ذاتوں میں
ہر کوئی غلام خواہش کا
اپنی ذات کی فرمائش کا
آگے آگے جانے کا
زیادہ زیادہ پانے کا
اسی کا نام زندگی ہے
اسی کا نام زندگی ہے
کبھی غیر ہنساتے ہیں
کبھی اپنے جلاتے ہیں
سارے منافق لوگ یہاں
کچھ ہوتے ہیں کچھ دیکھاتے ہیں
اندر اندر گٹھتے جانا
اپنا بوجھ لیے مر جانا
خود کے لیے سب کرنا
دوسروں پر احسان جتانا
اسی کو نام زندگی ہے
اسی کا نام زندگی ہے