اسیرِ دشتِ بلا کا نہ ماجرا کہنا
تمام پُوچھنے والوںکو بس دُعا کہنا
یہ کہنا رات گذرتی ہے اب بھی آنکھوں میں
تمہاری یاد کا قائم ہے سلسلہ کہنا
یہ کہنا اب بھی سُلگتا ہے بدن کا چندن
تمہارا قرب تھا ایک شعلہِ حنا کہنا
یہ کہنا چاند اُترتا ہے بام پر اب بھی
مگر نہیں وہ شبِ ماہ کا مزا کہنا
یہ کہنا حسرتِ تعمیر اب بھی ہے دل میں
بنا لیا ہے مکاں تو مکاں نما کہنا
یہ کہنا ہم نے ہی طوفاں میں ڈال دی کشتی
قصور اپنا ہے دریا کو کیا بُرا کہنا
یہ کہنا ہوگئے ہم اتنے مصلحت اندیش
چلے جو لُو تو اُسے بھی خنک ہوا کہنا
یہ کہنا ہار نہ مانی کبھی اندھیروں سے
بُجھے چراغ تو دل کو جلا لیا کہنا
یہ کہنا تم سے بچھڑ کر بکھر گیا تشنہ
کہ جیسے ہاتھ سے گر جائے آئینہ کہنا