اسے بھول جانے کی عادت سی ہو گئی ہے
روٹھ جانےکی عادت سی ہو گئی ہے
بنا کر اسیر اپنی زلفوں کا
ستم ڈھانے کی عادت سی ہوگئی ہے
ہوتا ہے جب ذکر اسکے لبوں کا
اسے مسکرانے کی عادت سی ہو گئی ہے
ہو جاتی ہے صبح اسے آتے آتے
اسے دیر سے آنے کی عادت سی ہو گئی ہے
چلا کر تیر اپنی نظروں کے
اسے تڑپانے کی عادت سی ہو گئی ہے
اس کا وعدہ کبھی وصال نہیں ہوتا
اسے بہانے بنانے کی عادت سی ہو گئی ہے