اسے خدا کے لیے چھوڑ کر
ہم نے خود کو خدا پے چھوڑ دیا
میرے دل کے ہزار ٹکرے ہوئے تیری خوشی کی خاطر
میں نے اپنے ارمانوں کا گلہ گھونٹ دیا
کس کس ظلم کس طرح بیان ہو گا لکی
تھک ہار کے ہم نے زمانے سے ہی ناطہ توڑ دیا
پیاس بھجتی آنکھوں کی تو چین کہیں ملتا
ُتوں نے آدھی راہ میں لا کر پانی کا پیالہ توڑ دیا
ہر کوئی مجھ سے تعلق توڑنے پے با زد تھا
ُتوں نے کیا ساتھ چھوڑا دل نے ہی رشتہ دھڑکنا چھوڑ دیا
محسوس کرو میری خامشی میں بھی کتنی وحشتیں ہیں
نجانے کیوں تم نے تلخیوں کی عنایت کر کے ہم نے منہ موڑ دیا