اشک بہا کر تجھے بدنام کریں اتنے بھی ہم غافِل نہیں
مانا کے کمزوریاں ہیں پر تیرے معاملے میں ہم کاہِل نہیں
زمانے کے سامنے خوش رہنا تو اک بہانہ ہے
ایسا تو نہیں ہے کہ ہم شکستِ دِل نہیں
محبت میں شکستِ دل تو اک لمبی کہانی ہے
یہ نصیب کی بات ہے تُو میری خوشیوں کا کاتِل نہیں
زندگی میں تو ہمیں اِس بات کا ملال رہا
جو چاہا وہ ملا نہیں، جو ملا اُس کے ہم قابِل نہیں
ہم سے ہمارے حال پہ کوئی سوال نہیں پوچھتا
سوال تو بہت ہیں، لیکن کوئی سائِل نہیں
سنو جانا تم خوش تو ہو نہ رقیب کی بستی میں
سُنا ہے وہاں کسی کو کوئی مسائل نہیں
تیرا نام نہیں لیتا ارسلان مگر ایسا بھی نہیں ہے
تیرا ہجر میرے بیانِ سُخن میں نہ ہو ایسی کوئی محفِل نہیں