اشکوں سے کھیلتے ہیں بڑے ہی ملال سے
بیٹھے ہیں آ ج شہر میں ہم بے حال سے
کوئی پستی سے مدد کے لیے پکار رہا ہے شاید
نڈر تھے کبھی اور ا ب ڈرتے ہیں زوال سے
اظہار پسند کا ان کی حال نہ پوچھیے
دیتے ہیں مثل بھی وہ شعر کی مثال سے
کسے خط لکھنا تھا ماہ غم میں ہمیں
یہی سوچ کر پریشاں ہیں پچھلے سال سے
وقت بھی تھا،جواب بھی دینا تھا اسے دل نے
اختتام گفتگو کر گیا وہ صرف اپنے سوال سے