جب درد بھرے ہے دھڑکن میں
اور آنکھیں ساون بھادوں ہوں
پھر یوں بھی تو جینا پڑتا ہے
ہر زخم چُھپانا پڑتا ہے
ہنس ہنس کے دِکھانا پڑتا ہے
اِک آگ سی دل میں لگتی ہے
ہر آن سُلگنا پڑتا ہے
دُنیا کے ریت رواجوں پر
اس دل کو مِٹانا پڑتا ہے
رسموں کو نِبھانا پڑتا ہے
سینے میں سُلگتے ہیں ارماں
ارمانوں کی زندہ قبروں پر
ہر خواہش نوحہ پڑھتی ہے
پر جی کے دِکھانا پڑتا ہے
اشکوں کو چھُپا کر آنکھوں میں
گھُٹ گھُٹ کے سسکنا پڑتا ہے
جیون کے ادھور ے سپنوں کو
دل میں ہی سُلانا پڑتا ہے
ایسے بھی تو جینا پڑتا ہے
ہر زہر کو پینا پڑتا ہے
مجبوراً جینا پڑتا ہے
افسوس کہ جینا پڑتا ہے