الجھنوں کو خیالوں کے قافلے مل گئے
خودی کو تو ہر جگہ مقابلے مل گئے
بس آب و تاب سے تھوڑا دل اٹھ گیا
جب حسرت کو کئی لاحاصل راستے مل گئے
عشق کی اڑانیں تو اپنی سرحدوں سے نکلی
مگر محبت کو اللہ کے واسطے مل گئے
صحرا منتظری پہ بادل بس گرجتا ہی رہا
اور مفلسی کو کئی دنوں کے فاقے مل گئے
روح کے بندھن میں دراڑ نہ رہی باقی
مزاج کو شوخیوں کے فاصلے مل گئے
پرستش سے کم بختی کم نہ ہوئی سنتوش
مگر کہیں کہیں کسی کو بھاگے مل گئے