آنسو رخسار میں بھگویا ہے کسی نے
ہم سے ناتا توڑا ہے کسی نے
بنا کے خاک چھوڑا ہے کسی نے
امید وفا توڑا ہے کسی نے
دل کے ارمانوں کو کھریدا ہے کسی نے
زخموں کے تار کو چھڑا ہے کسی نے
ادھورا کر کے تنہا کیا ہے کسی نے
امید وفا توڑا ہے کسی نے
بیچ منزل میں لا کے چھوڑا ہے کسی نے
عشق کی تاریکیوں میں ڈبویا ہے کسی نے
پیار کی دھل کو پیھنکا ہے کسی نے
امید وفا توڑا ہے کسی نے
وعدوں کو وفا نہ کیا ہے کسی نے
محبّت کی تپتی ریت پر چلتا چھوڑا ہے کسی نے
گلاب عشق کے کانٹوں سے چھلی کیا ہے کسی نے
کنول امید وفا توڑا کسی نے