ویران مسکراہٹ چہرے پہ سجائے بیٹھا ہوں
دیا اپنے دل کا میں بجھائے بیٹھا ہوں
دل کے دروازے پہ تیری دستک کا جواز نہیں
تجھے ہر راز کا امین میں بنائے بیٹھا ہوں
زندگی کی چمک دمک سے مجھے مطلب نہیں
میں تو ہر سو اندھیرا ہی رچائے بیٹھا ہوں
تم جگنو بن کے چمک تو رہے ہو
میں اپنی راہ خود ہی گنوائے بیٹھا ہوں
دور کہیں دور مجھے کچھ اجالا نظر آتا ہے
پر میں روشنی سے منہ چھپائے بیٹھا ہوں
تیری آمد، تیری دل جوئی کا شکریہ اے دوست
تیری باتیں میں دل میں بسائے بیٹھا ہوں
میری آنکھوں میں بھی امید کا دیا جلتا ہے
یہ اور بات کہ حسرتوں کو دبائے بیٹھا ہوں