ایک معصوم سا پیارا سا بچہ
آنکھو ں میں امید کا دیا لئے
ہر گزر نے والے کو بہت غور سے دیکھتا ہے
کبھی سکول کے بچوں کو
اور
کبھی کالج جانے والوں کو
وہ اپنا آپ تلاش کرتا ہے
کہ
کاش وہ بھی سکول جاتا
وہ معصوم سا بچہ
کچرے کے ڈھیر پہ بہٹھا
کا غذ کے ننھے ٹکڑوں کو
ڈھونڈتا ہے
لیکن وہ پڑھنے سے قاصر ہے
پہر بھی
وہ ان کاغذ کے ٹکڑوں کو
اپنے ننھے ہاتھوں میں چھپا لیتا ہے
اور
اک امید کا دیا وہ
ہمیشہ جلائے رکھتا ہے
کہ
امید پہ دنیا قائم ہے