امید کے دم پر مشن مریخ ہے
بڑھتے خلا سے رابطے کی چیخ ہے
محنت کڑی درکار تھی پرواز کو
سارہ نے بخشی دھن الگ ہے ساز کو
سائنس کی جو دین دنیا کو ملی
عربوں کی ہی مرہون منت جو رہی
آغاز تو اچھا رہا ہے فضل سے
انجام ہو بہتر دعاء مقبول سے
جب ابتداء ہو ہی گئی تو شکر ہے
عالم میں اپنی شان ہو تو فخر ہے
پس پشت کب تک خود کو رکھنا ہے بھی
کیا ہوش کے ناخن نہیں لینا ہے بھی
کرتب صنف نازک کے دیکھ خوشی ہوئی
ہمت بھی بڑھنے کے لئے کافی ہوئی
ہے آرزو ناصر بڑی مضبوط سی
ہو اور بھی کچھ نت نئی افراط سی