باندھے تھے حسرتوں پہ امیدوں کے جتنے پل
ان سب حقیقتوں کی گرھیں گئیں آج کھل
برسوں جلا تھا جو کہ خون جگر سے میرے
شب یلدا نے کر دیا وہ چراغ وفا بھی گل
دل کا چمن ہے سونا پھر کیوں ہے شور برپا
دہکتا ہے میرا سینہ یا روتا ہے کوئی بلبل
اشکوں میں بہا دیا غم زندگی کو پھر بھی
تھم نہ سکا کسی طور یادوں کا یہ تسلسل
دکھ درد میں صبر سے اب کام لے تو ضیغم
کہ شمس و قمر پہ بھی تو آتا ہے یہ تنزل