ان کی باتوں میں مری بات کہاں ہوتی ہے
قابلِ ذکر مری ذات کہاں ہوتی ہے
فن کو درکار نہیں ہوتا کوئی بھی چرچا
خوبی محتاجِ خطابات کہاں ہوتی ہے
پوچھنا ان سے اب اتنا بھی تو آسان نہیں
دن گذرتا ہے کہاں رات کہاں ہوتی ہے
آپ سے مل نہیں پائی تو تعجب کیسا ؟
خود سے بھی میری ملاقات کہاں ہوتی ہے
دشمنی کی کوئی بنیاد تو رکھتا ہوگا
خود بخود اس کی شروعات کہاں ہوتی ہے
درمیاں اپنوں کے دن رات بِتانا عذرا
اب میسر بھی وہ سوغات کہاں ہوتی ہے