ان کی محفل ہے، یہاں رنگ دکھا اور بھی کچھ
اے دل داد طلب ! رقص میں آ اور بھی کچھ
خون آنکھوں سے بہانا ہے پرانا کرتب
شعبدے ان کو ذرا کھل کے دکھا اور بھی کچھ
جب بھی دیکھوں ، مجھے دشنام دیا کرتے ہو
بات آتی ہے تمہیں اس کے سوا اور بھی کچھ ؟
صرف پھولوں کی صباحت پہ نہیں میری نظر
کہہ گئی ہے مرے کانوں میں صبا اور بھی کچھ
مجھ کو تسلیم تری سحر بیانی قاصد !
صرف باتیں نہ بنا ، کام دکھا اور بھی کچھ
آگ دب جائے، ذرا سینے میں ٹھنڈک تو پڑے
مجھے کہہ لیجئے سرکار ! برا اور بھی کچھ
سادگی تو مرے رہزن کی یہ دیکھے کوئی
لوٹ کر پوچھ رہا ہے کہ بچا اور بھی کچھ ؟
عام لوگوں کی زباں پر شہ خوباں ہی نہیں
کہہ رہی ہے تجھے مخلوق خدا اور بھی کچھ
جب بھی ساقی نے مجھے پوچھ لیا ہنس کے نصیر !
چوم کر جام وہیں میں نے کہا اور بھی کچھ