انا کے موڑ پر سوچا نہیں ہے
پلٹ کر پھر اسے دیکھا نہیں ہے
ڈرو اس عہد کے آئینہ گر سے
وہ گونگا ہے مگر اندھا نہیں ہے
میں جس میں ڈوب جانا چاہتا ہوں
وہ دریا ہے مگر گہرا نہیں ہے
اب اس موضوع پر کیا بحث کرنا
تمہارا وہ لب و لہجہ نہیں ہے
میں خود لفظوں کی بازی کھیلتا ہوں
مگر اس بات کا موقع نہیں ہے
ہمیشہ کی طرح محتاط ہے وہ
مری دستک پہ بھی کھلتا نہیں ہے