چھپ کے جو اس نے وار کیا میرے وجود پہ
نظروں کے سامنے آ گئے معجزے سجود کے
وہ دوست بن کے یوں ملا آستیں کا سانپ
رگ رگ میں اتر گئے زہر اس کے سلوک کے
وہ رات بھر کا سوگ تھا اور قفس میں دھواں
اور ٹھنڈی آگ نے دکھا دئیے کرشمے محبوب کے
چور چور جو دیکھا جسم کو ان کی جفاؤں سے
زخموں پر رکھ دیا مرہم جلتے مشروب سے