زندگی سفر میں ہے ، آدمی مسافر ہے
جس طرح بھی ممکن ہو
اس نے چلتے جانا ہے
وقت کے بہاؤ میں
ہم نے بہتے جانا ہے
رزق ہو تعلق ہو
یہ تو بس بہانے ہیں
آدمی کی قسمت میں
کو بکو بھٹکنا ہے
دردبدر بہکنا ہے
دو قدم مسافت پر
راستہ بدلنا ہے
راستہ نہ بدلے بھی
تو بھی اس کو جانا ہے
عمر بھر کی سنگت کو
ایک پل نہیں لگتا
سامنے نگاہوں کے
سانسیں ٹوٹ جاتی ہیں
گرہیں چھوٹ جاتی ہیں
ہم بھی کتنے پاگل ہیں
رزق کو ، تعلق کو
جوڑ جوڑ رکھتے ہیں
اور بھول جاتے ہیں
انتہا ملن کی تو ، ٹوٹنے کے اندر ہے
زندگی سفر میں ہے ، آدمی مسافر ہے