سوچ کے ستن میں, میں اک لپٹی ہوئی تصویر
اک دیوار کی مانند ,میں انجان کھڑی ہوں
اک بے چین سی روح ہوں , اک خاک ِنشیں ہوں
کبھی دستک ,کبھی گمان, کبھی حسرت کی کلی ہوں
اک آئینہ میں کھڑی , میں بے جان سی مورت
دل کی گہرایوں میں ،بہت ویران سی پڑی ہوں
اک گلستان کی ماند ،میں پھولوں سے سیراب
پر اسی گلشن کی جبیں پے, میں ویران سی پڑی ہوں
جو خوش ہوں , تو میں ہوں مہتاب کی ماند
جو افسردہ ہوں, تو میں غمگین ستاروں کی چمک ہوں
ہے انجان سا سفر اور میں انجان نگر میں
میں سعدیہ ٓ خود سے ہی انجان کھڑی ہوں