اندازِ وفا جِس کا تغافل کی طرح ہے
وہ جانِ وفا زیست کے حاصل کی طرح ہے
یہ جسم کہ کاندھے پہ دھرا جیسے کویٔ بوجھ
یہ زیست کہ اِک کربِ مسلسل کی طرح ہے
بس مانگے تری دید کی خیرات صبح و شام
دِل گویا مرا کاسۂ سایل کی طرح ہے
|
طایرٔ کی طرح درد کے پنجرے میں مِرا دِل
رنجور ہے ، محجور ہے بسمِل کی طرح ہے
مہکا تا رہے شام و سحر روُح کو میری
یادوں کا دُھواں خوشبوۓ صندل کی طرح ہے
کر دیتا ہے جو رنج سے پھولوں کے جگر چاک
نالہ مِرا فریادِ عنادل کی طرح ہے