اندھا کر دیا ہے دولت نے انسانوں کو
کون دیکھے گا تمہارے زخموں کے نشانوں کو
اس سے پہلے کہ کاٹ ڈالے ہر شجر انساں
پرندو کسی پہاڑوں پر بنا لو آشیانوں کو
اپنی ہی زندگی جب امانت ہے کسی کی
کون سدا تیرے پاس رہنے دے گا خزانوں کو
میں بھی امیر ہوتا تو بناتا گھر پتھر کے
مٹی کے گھر گرتے ہیں کیوں دوش دوں طوفانوں کو