غمِ تنہائی میں راحتِ دل کا سبب ہے
اک یہ چنچل سی ہوا اور اندھیری رات
کون بیگانہ ہے اور کون میرا اپنا ہے
سب کا انداز ہے یکجا اور اندھیری رات
موت تو بر حق ہے ایک دن آنی ہے
محوِ گفتار ہوں خود سے اور اندھیری رات
میری منزل کی طرح خفا آج کی شب چاند بھی ہے
گواہ فلک کے ہیں بادل اور اندھیری رات
تم تو کیا میری ذات بھی میری تلاش میں ہے
مگر گمشدہ عینی ہے اور اندھیری رات