روح بے چین ہے اک دل کی ازیت کیا ہے
دل ہی شعلہ ہے تو یہ سوزِ محبت کیا ہے
وہمجھے بھول گئ اس کی شکایت کیا ہے
رنج تو یہ ہے کہ رو رو کے بھلایا ہو گا
جھک گئی ہو گی جواں سال امنگوں کی جبیں
مت گئی ہو گی تلک، ڈوب گیا ہو گا یقیں
چھا گیا ہو گا دھواں، گھوم گئی ہو گی زمیں
اپنے پہلے ہی گھروندے کو جو ڈھایا ہو گا
دل نے ایسے بھی کچھ افسانے سنائے ہوں گے
اشک آنکھوں نے پئیے اور نہ بہائے ہوں گے
بندکمرے میں جو خط میرے جلائے ہوں گے
ایک اک حرف جبیں پرابھر آیا ہوگا
اُس نے گھبرا کر نظر لاکھ چھپائی ہو گی
مٹ کے اک نقش نے سو شکل دکھائی ہو گی
پیار سے جب میری تصویر بنائی ہو گی
ہر طرف مجھ کو تڑپتا ہوا پایا ہو گا