گلہ نمو کا نہ دل میں خزاں کا غم رکھا
میں جس کی شاخ ہوں اس پیڑ کا بھرم رکھا
وہ ایک غم ہی تو دلبستگی کا ساماں ہے
تمام عمر ہمیں جس نے تازہ دم رکھا
کچھ اس لئیے بھی میں کرتا ہوں احترام اس کا
سر آسمان کو چُھو کر بھی اس نے خَم رکھا
مجھے خبر ہے کہ یہ جنس ہے انمول یہاں
اسی لئیے نہ کبھی دل کا مول کم رکھا
تھا ایک بار - عجب سر پہ بے امانی کا
جو ماں کے بعد عدیل ابکے گھر قدم رکھا