وہ گردن فراز ہلاکو جو خانِ جاناں تھا
جنونِ عشق کی رسمِ عجیب کے ہاتھوں
چلا گیا تھا وہ تیرگی پیہم میں
کبھی ملول نہ رکھتا تھا اسے وہ شوقِ فضول
قربتِ رنگیں میں دیکھ لیتا تھا
زلفِ گرہ گیر کے پھول
سٹھیایا ہوا فلسفہ زدہ خبطی مجنوں
عالم پیری میں کھو بیٹھا اپنے ہوش و حواس
جنس کے نشے کو وہ وجہ شفا جانتا تھا
گل کی صباحت کا حلقہ بگوش
پرتوِ خور کو بھی حرف دعا مانتا تھا
پری چہرہ لوگ دیکھ لینے پر
بیاضِ آرزو تھامے لپکتا تھا وہ ایسے
مہ وشوں کے جمگھٹ میں وہ خانہ بدوش
حسین کھلکھلاہٹوں میں ہنہنانے لگتا تھا
جمالِ حسن، خم گیسواں کی موجوں میں
اپنے گنج پہ ناخن چلانے لگتا تھا
سر کھجاتے ہوئے مسکرانے لگتا تھا
شوریدگی فسونِ تمنا کے سبب
خوابوں کے بھنور میں غرق، کاوشِ ہستی سے بے خبر
کربِ غمِ شعور سے بے بہرہ روسیاہ
بازار التفات میں گدائی کے واسطے
پہنچا تو سامنے تھا سرابوں کا اژدہام
وحشی تھا بے لگام
فطرت کی تعزیروں میں گھر گیا تھا وہ
بولنا وہاں پہ حد درجہ تھا محال
پھر بھی زبان خلق پر تھا ایک ہی سوال
چور محل کے اے وحشی
تم سانپ تلے کے بچھو تھے
چور درواز ے سے گھس کر تم نے
قدروں کو پامال کیا
فرعون اور نمرود کے مانند تم نے
انسان کو بد حال کیا
چام کے دام چلائے تم نے
مجبوروں اور مظلوموں کا
ذرا نہ تم نے خیال کیا
وقفِ اضمحلال کیا
اجلاف اور ارذال کی نسل کے مشکوک نسب کے متفنی وحشی
وحشت اور بربریت میں تم نے
بش کو بھی دے ڈالی مات
تیرا کیا کہنا اور تیری کیا ہی بات
کیسے رواقیت کا داعی بن بیٹھا تھا تو
ظلمت معقول اور بے بصری سے لیس
تجھ کو تھی منصب کی گھات
اے شیخ چلی، تجھے شیخ الجامعہ بنایا گیا
اہلِ علم دانش پر کتنا ظلم ڈھایا گیا
جاہل نے یوں جہل کا پایا انعام
اہلِ دانش گھر لوٹے بے نیل مرام
تیری جہالت مآبی کے سے گلشن ویران ہوا
تاریخ لکھے گی حرف سیاہ میں سب کچھ
ذلت اور تخریب کے کتبے تجھ سے ہی منسوب رہے
تیرے دور میں حق گو سارے
کتنے ہی معتوب رہے
تیرا کچا چٹھا آخر کھول دیا تھا
فطرت کی تعزیروں نے
قحبہ خانہ تیرا طشت از بام ہوا
دنیا بھر میں تو بے حد بدنام ہوا
سن لی تھی جو اخباروں میں ہوئی تھی حاشیہ آرائی
تم سر بزانو بیٹھے ہوئے تھے
لوگ تھے محو گویائی
اور تم بے حسی کا کنٹوپ چڑھائے
دندناتے پھرتے ہو
بے غیرتی اور بے ضمیری کی بھی کوئی حد ہوتی ہے
تم نے کچھ نہ کیا خیال
شرم تو تم کو کیسے آئے گی
موت بھی اب تلک نہیں آئی
ذہن و ذکا اور عقل و خرد سے تو کرتا تھا ٹھٹھول
تجھ کو دیکھ کے سب کے دل سے اٹھے سیکڑوں ہول
دیکھ کے تجھ کو سب کے منہ نکلتا تھا لا حول
واہ رے ابوالہول
بے قراری اور انتظاری میں
حادثو ں کا حساب کر لیتے
تجھے تو کج کلاہی کا تھا نشہ
ذرا اپنی تباہی کو دیکھو
اب شہرِ التفات کو بھول جاؤ تم
اب شہرِ رفتگاں کی تیاری کرو ضرور
یہی منزل تمھاری منتظر ہے
مگر اب تک تو اس سے بے خبر ہے
ہر ماہ رو تجھ سے اب ہوگیا ہے دور
شاخساروں سے اڑ گئے ہیں طیور
اب کھنڈر ہوں گے اور تم ہو گے
مثل بوم اور شپر روشنی سے دور ہو تم
حقارتوں کے بوجھ تلے سسکتے رہنے پہ مجبور ہو تم
یا رب زمیں کا بوجھ زمیں سے اتار دے
اس بوالہوس کو جلد زینہ ہستی سے اتار دے
اس کی لحد پہ جاوداں خار و خس رہیں
اس کے حواری سارے اسیر ہوس رہیں