Add Poetry

انہونی

Poet: Shabbir Rana By: Dr. Ghulam Shabbir Rana, Jhang City(Punjab--Pakistan)

وہ گردن فراز ہلاکو جو خانِ جاناں تھا
جنونِ عشق کی رسمِ عجیب کے ہاتھوں
چلا گیا تھا وہ تیرگی پیہم میں
کبھی ملول نہ رکھتا تھا اسے وہ شوقِ فضول
قربتِ رنگیں میں دیکھ لیتا تھا
زلفِ گرہ گیر کے پھول
سٹھیایا ہوا فلسفہ زدہ خبطی مجنوں
عالم پیری میں کھو بیٹھا اپنے ہوش و حواس
جنس کے نشے کو وہ وجہ شفا جانتا تھا
گل کی صباحت کا حلقہ بگوش
پرتوِ خور کو بھی حرف دعا مانتا تھا
پری چہرہ لوگ دیکھ لینے پر
بیاضِ آرزو تھامے لپکتا تھا وہ ایسے
مہ وشوں کے جمگھٹ میں وہ خانہ بدوش
حسین کھلکھلاہٹوں میں ہنہنانے لگتا تھا
جمالِ حسن، خم گیسواں کی موجوں میں
اپنے گنج پہ ناخن چلانے لگتا تھا
سر کھجاتے ہوئے مسکرانے لگتا تھا
شوریدگی فسونِ تمنا کے سبب
خوابوں کے بھنور میں غرق، کاوشِ ہستی سے بے خبر
کربِ غمِ شعور سے بے بہرہ روسیاہ
بازار التفات میں گدائی کے واسطے
پہنچا تو سامنے تھا سرابوں کا اژدہام
وحشی تھا بے لگام
فطرت کی تعزیروں میں گھر گیا تھا وہ
بولنا وہاں پہ حد درجہ تھا محال
پھر بھی زبان خلق پر تھا ایک ہی سوال
چور محل کے اے وحشی
تم سانپ تلے کے بچھو تھے
چور درواز ے سے گھس کر تم نے
قدروں کو پامال کیا
فرعون اور نمرود کے مانند تم نے
انسان کو بد حال کیا
چام کے دام چلائے تم نے
مجبوروں اور مظلوموں کا
ذرا نہ تم نے خیال کیا
وقفِ اضمحلال کیا
اجلاف اور ارذال کی نسل کے مشکوک نسب کے متفنی وحشی
وحشت اور بربریت میں تم نے
بش کو بھی دے ڈالی مات
تیرا کیا کہنا اور تیری کیا ہی بات
کیسے رواقیت کا داعی بن بیٹھا تھا تو
ظلمت معقول اور بے بصری سے لیس
تجھ کو تھی منصب کی گھات
اے شیخ چلی، تجھے شیخ الجامعہ بنایا گیا
اہلِ علم دانش پر کتنا ظلم ڈھایا گیا
جاہل نے یوں جہل کا پایا انعام
اہلِ دانش گھر لوٹے بے نیل مرام
تیری جہالت مآبی کے سے گلشن ویران ہوا
تاریخ لکھے گی حرف سیاہ میں سب کچھ
ذلت اور تخریب کے کتبے تجھ سے ہی منسوب رہے
تیرے دور میں حق گو سارے
کتنے ہی معتوب رہے
تیرا کچا چٹھا آخر کھول دیا تھا
فطرت کی تعزیروں نے
قحبہ خانہ تیرا طشت از بام ہوا
دنیا بھر میں تو بے حد بدنام ہوا
سن لی تھی جو اخباروں میں ہوئی تھی حاشیہ آرائی
تم سر بزانو بیٹھے ہوئے تھے
لوگ تھے محو گویائی
اور تم بے حسی کا کنٹوپ چڑھائے
دندناتے پھرتے ہو
بے غیرتی اور بے ضمیری کی بھی کوئی حد ہوتی ہے
تم نے کچھ نہ کیا خیال
شرم تو تم کو کیسے آئے گی
موت بھی اب تلک نہیں آئی
ذہن و ذکا اور عقل و خرد سے تو کرتا تھا ٹھٹھول
تجھ کو دیکھ کے سب کے دل سے اٹھے سیکڑوں ہول
دیکھ کے تجھ کو سب کے منہ نکلتا تھا لا حول
واہ رے ابوالہول
بے قراری اور انتظاری میں
حادثو ں کا حساب کر لیتے
تجھے تو کج کلاہی کا تھا نشہ
ذرا اپنی تباہی کو دیکھو
اب شہرِ التفات کو بھول جاؤ تم
اب شہرِ رفتگاں کی تیاری کرو ضرور
یہی منزل تمھاری منتظر ہے
مگر اب تک تو اس سے بے خبر ہے
ہر ماہ رو تجھ سے اب ہوگیا ہے دور
شاخساروں سے اڑ گئے ہیں طیور
اب کھنڈر ہوں گے اور تم ہو گے
مثل بوم اور شپر روشنی سے دور ہو تم
حقارتوں کے بوجھ تلے سسکتے رہنے پہ مجبور ہو تم
یا رب زمیں کا بوجھ زمیں سے اتار دے
اس بوالہوس کو جلد زینہ ہستی سے اتار دے
اس کی لحد پہ جاوداں خار و خس رہیں
اس کے حواری سارے اسیر ہوس رہیں

Rate it:
Views: 477
27 Nov, 2009
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری
ترے قصہ کے پیچھے پیچھے ہوگی داستاں میری
کریں گی دیکھیے الفت میں کیا رسوائیاں میری
جہاں سنئے بس ان کا تذکرہ اور داستاں میری
قیامت میں بھی جھوٹی ہوگی ثابت داستاں میری
کہے گا اک جہاں ان کی وہاں یا مہرباں میری
بہت کچھ قوت گفتار ہے اے مہرباں میری
مگر ہاں سامنے ان کے نہیں کھلتی زباں میری
قیامت کا تو دن ہے ایک اور قصہ ہے طولانی
بھلا دن بھر میں کیوں کر ختم ہوگی داستاں میری
وہ رسوائے محبت ہوں رہوں گا یاد مدت تک
کہانی کی طرح ہر گھر میں ہوگی داستاں میری
سناؤں اس گل خوبی کو کیوں میں قلب کی حالت
بھلا نازک دماغی سننے دے گی داستاں میری
کہوں کچھ تو شکایت ہے رہوں چپ تو مصیبت ہے
بیاں کیوں کر کروں کچھ گو مگو ہے داستاں میری
اکیلا منزل ملک عدم میں زیر مرقد ہوں
وہ یوسف ہوں نہیں کچھ چاہ کرتا کارواں میری
یہ دل میں ہے جو کچھ کہنا ہے دامن تھام کر کہہ دوں
وہ میرے ہاتھ پکڑیں گے کہ پکڑیں گے زباں میری
پھنسایا دام میں صیاد مجھ کو خوش بیانی نے
عبث پر تو نے کترے قطع کرنی تھی زباں میری
نہ چھوٹا سلسلہ وحشت کا جب تک جاں رہی تن میں
وہ مجنوں ہوں کہ تختے پر ہی اتریں بیڑیاں میری
مشبک میں بھی تیر آہ سے سینے کو کر دوں گا
لحد جب تک بنائے گا زمیں پر آسماں میری
محبت بت کدہ کی دل میں ہے اور قصد کعبہ کا
اب آگے دیکھیے تقدیر لے جائے جہاں میری
بھلا واں کون پوچھے گا مجھے کچھ خیر ہے زاہد
میں ہوں کس میں کہ پرسش ہوگی روز امتحاں میری
تصدق آپ کے انصاف کے میں تو نہ مانوں گا
کہ بوسے غیر کے حصے کے ہوں اور گالیاں میری
مصنف خوب کرتا ہے بیاں تصنیف کو اپنی
کسی دن وہ سنیں میری زباں سے داستاں میری
فشار قبر نے پہلو دبائے خوب ہی میرے
نیا مہماں تھا خاطر کیوں نہ کرتا میزباں میری
قفس میں پھڑپھڑانے پر تو پر صیاد نے کترے
جو منہ سے بولتا کچھ کاٹ ہی لیتا زباں میری
وہ اس صورت سے بعد مرگ بھی مجھ کو جلاتی ہیں
دکھا دی شمع کو تصویر ہاتھ آئی جہاں میری
ہر اک جلسے میں اب تو حضرت واعظ یہ کہتے ہیں
اگر ہو بند مے خانہ تو چل جائے دکاں میری
طریقہ ہے یہی کیا اے لحد مہماں کی خاطر کا
میں خود بے دم ہوں تڑواتی ہے ناحق ہڈیاں میری
پسند آیا نہیں یہ روز کا جھگڑا رقیبوں کا
میں دل سے باز آیا جان چھوڑو مہرباں میری
ہزاروں ہجر میں جور و ستم تیرے اٹھائے ہیں
جو ہمت ہو سنبھال اک آہ تو بھی آسماں میری
یہ کچھ اپنی زباں میں کہتی ہیں جب پاؤں گھستا ہوں
خدا کی شان مجھ سے بولتی ہیں بیڑیاں میری
بنایا عشق نے یوسف کو گرد کارواں آخر
کہ پیچھے دل گیا پہلے گئی تاب و تواں میری
پڑھی اے بزمؔ جب میں نے غزل کٹ کٹ گئے حاسد
رہی ہر معرکہ میں تیز شمشیر زباں میری
 
ناصر
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets