اور ُاس تک کوئی خبر نا گئی
کل شب مر گیا مجھ کوئی
اردوں کا بہت پکاء
لفظوں کا بہت سچا
اک شخص پے اعتبار کرتے کرتے
عزت کے نام پے سولی چڑ گیا کوئی
اور ُاس تک کوئی خبر نا گئی
اک شخص سجدوں میں جھکا ہوا
دعاوں سے سجا ہوا
ممکن - نا - ممکن کی سوچ سے بھی
بہت آگئے کا یقین رکھتا ہوا
بس اک انکار کی آگ میں جل گیا کوئی
اور ُاس تک کوئی خبر نا گئی
نیت پے ملنی مراد تھی
جہاں قدم قدم پے بھی خدا کی ذات تھی
پھر بھی دنیا کے طعنوں سے
اندر ہی اندر مر گیا کوئی
اور ُاس تک کوئی خبر نا گئی
اک آندھری رات میں
آنسووں کی برسات میں
کچھ پوشیدہ یادوں کی یاد میں
قطرہ قطرہ کر کے مٹ گیا کوئی
اور ُاس تک کوئی خبر نا گئی
توں نے ساتھ چھوڑا تو
اک گلاب سا چہرہ مرجھا گیا
تیرے ٹھکرانے کے بعد ُاس شخص کو
دنیا نے بھی ٹھکرا دیا
موم سا وجود لے کر پتھر بن گیا کوئی
اور ُاس تک کوئی خبر نا گئی