چاند تاروں کا بھرم ٹوٹ گیا
غم کے ماروں کا بھرم ٹوٹ گیا
بس ذرا لہر سی اٹھی دل میں
اور کناروں کا بھرم ٹوٹ گیا
پتی پتی ہوئے گلاب کے پھول
پھر بہاروں کا بھرم ٹوٹ گیا
ہم فقیروں کے ایک سجدے سے
تاجداروں کا بھرم ٹوٹ گیا
ساتھ اپنا وجود بھی نہ رہا
سب سہاروں کا بھرم ٹوٹ گیا
ٹوٹ بکھرا ہوں ایک لمحے میں
آج یاروں کا بھرم ٹوٹ گیا
مرکزہ کس طرح سلامت ہو
جب مداروں کا بھرم ٹوٹ گیا
کھل گیا راز زندگانی کا
استعاروں کا بھرم ٹوٹ گیا