اور کچھ نہیں چاہیے تجھ سے اے میری عمر رواں
وہ میرا لڑکپن وہ میرے گاؤں کی گلیاں مجھے لا دے
جانتا ہوں نہ لوٹا سکے گی تو میرا گزرا ہوا وقت مگر
وہ جو دوستی میں خلوص تھا وہ مجھے کہیں سے لا دے
ہزاروں خواہشیں لیے نکلا تھا دیار غیر کے جس سفر پہ میں
کھو گیا ہے جو اس پہ کہیں وہ میرا سکون مجھے لا دے
یوں تو بہت کچھ ملا ہے دیار غیر میں مجھ کو ڈار مگر
جسے میں جان سے عزیز تھا وہ یار کہیں سے لا دے