اور کیا کرتا بیان ِ غم تمہارے سامنے
میری آنکھیں ہو گئیں پُرنم تمہارے سامنے
ہم جدائی میں تمہاری مر بھی سکتے ہیں مگر
چاہتے یہ ہیں کہ نکلے دم تمہارے سامنے
پھر خدا کی ذات سے کیوں کر تمہیں انکار ھے
ھے اگر تنظیم ِ دوعالم تمہارے سامنے
یہ ملال ِ موسم ِ رفتہ ھے آخر کس لیے
مُسکراتا ھے نیا موسم تمہارے سامنے
جس میں ہم دونوں کے بچپن کی بھی اِک تصویر ھے
ڈھونڈ کر لایا ہوں وہ البم تمہارے سامنے
آتے آتے لب پہ رہ جاتی ہیں دل کی حسرتیں
کھولتے ہیں ہم زباں کم کم تمہارے سامنے
تُم سمندر کی طرح آغوش وا کرتے نہیں
ہم تو بن جاتے ہیں موج ِ یم تمہارے سامنے
کس لیے تُم نیند میں شرما رہے ہو اِس طرح
خواب میں کیا آ گئے ہیں ہم تمہارے سامنے
تُم نے اپنے قد کا اندازہ لگایا ھے غلط
ھے اگر قامت ہماری کم تمہارے سامنے
یہ دلیل ِ گریہء موج ِ صبا یاور نہ ہو
ھے گُل ِ تازہ پہ جو شبنم تمہارے سامنے