اونچی سی حویلی ہے تنہائی کی راتیں ہیں
خاموش فضاؤں میں روتی ہوئی آہیں ہیں
تم پاس نہیں ہو تو، بوجھل ہیں سبھی منظر
بے کیف ہیں دن سارے،بے کیف سی شامیں ہیں
دل کرب کے صحرا کا مسکن ہے عجب میرا
پر خار سبھی اس پر پھیلی ہوئی راہیں ہیں
اس دل میں اداسی ہے یہ روح بھی پیاسی ہے
تنہائی ہے جو بن پر اکھڑی ہوئی سانسیں ہیں
اس گردشِ دوراں میں وشمہ کی غزل گوئی
سہمی ہوئی راتوں میں تنہائی سے باتیں ہیں