اُجڑی شاخوں کو کبھی پھل نہیں لگتا
وہ دل سے مجھے میرا ‘اک پل نہیں لگتا
ستاروں کے جھُرمٹ میں لے چلو کہیں
کہ اب زمیں پہ کہیں دل نہیں لگتا
کیوں مستحکم وعدے ناپائیدار ہونے لگے
گر ہمراہ ہیں تو سفر مشکل نہیں لگتا
سبھی کچھ تھا وہ گزری مدّت میں میرے لئے
نجانے کیوں کچھ بھی آج کل نہیں لگتا
اُمید نہیں پیار کی کرن چمکتی رہے گی
خطِ پیشانی پہ وصل کا لکھا مکمّل نہیں لگتا
آنے لگی ہیں لمحاتِ خموشی سے صدائیں
سوائے موت اس مسئلے کا کوئی حل نہیں لگتا