ساحل اداس تھا کہ
سمندر اداس تھا
لگتا تھا جیسے سارا منظر اداس تھا
لوٹی فلک سے تو بڑی دل گیر تھی دعا
اک خواب ٹوٹنے پر مقدر اداس تھا
پھر چاند کو گلے لگا کر،رو پڑی گھٹا
ایسا لگا طوفان بھی فلک پر اداس تھا
میری تبائیوں پراسے بھی ملال تھا
آئینہ خود کا توڑ کر پتھر بھی اداس تھا
جو شخصشہر میں سب ہی کو ہنسی بانٹتا رھا
یہ دل اسی کی بزم میں جا کر اداس تھا
کرو گے یاد اک دن تم محبت کے زمانے کو
چلے جائیں گے ہم جس دن کبھی نہ واپس آنے کو
کسی محفل میں چھیڑے گا ہمارا زکر جب کوئی
چلے جاؤ گے تنہائی میں تم آنسو بہانے کو
گھٹائیں پربتوں پر جھک کے جب اُلفت بہائیں گی
ترس جاؤ گے تم بھی تب ہمارے پاس آنے کو
سفر میں اپنے حصے کی مسافت یاد رہتی ہے
کہیں آباد ہونے پر بھی ہجرت یاد رہتی ہے
وہ چاہے دوستی ہو، دشمنی ہو یا محبت ہو
یہاں ہر حال میں اپنی ضرورت یاد رہتی ہے
کسی صحرا کو پیاسا چھوڑ جاتا ہے کبھی دریا
کبھی پیاسے کو دریا کی سخاوت یاد رہتی ہے
یہ سچ ہے پیار پہلا ہی بسا رہتا ہے سانسوں میں
یہ سچ ہے عمر بھر پہلی محبت یاد ریتی ہے