اُس خرابے میں کئی لعل و گوہر بستے ہیں
جس خرابے میں غر یبانِ شہر بستے ہیں
وسعتِ فیضِ جنوں ، اہلِ خرد کیا جانیں
یہ وہ دنیا ہے جہاں اہلِ نظر بستے ہیں
ظالمو ، غارت گرو ، شہر اُجاڑا نہ کرو
بستے بستے کئی صدیوں میں شہر بستے ہیں
کچھ مرِی سوچ کی دنیا ہے فسانوں جیسی
کچھ مرِی آ نکھ میں خوابوں کے نگر بستے ہیں
بات سادہ سی ہے انور جی، اگر یاد رہے
لوگ ِمل جلُ کے بساتے ہیں تو گھر بستے ہیں