اُس کی آس میں ملوث ہر سانس ہو گیا
میرا خانہء محبتِ قلب اُداس ہو گیا
کچھ اتنا تو نہ تھا میرے دل کو ربط اُس سے
جتنا کہ بے وفائی سے وہ خاص ہو گیا
آشوب کب تک کٹے گا‘ راہ کب ملے گی؟
ہر آس پہ بس یہی خاصہء آس ہو گیا
رسمِ جنون نے آخر حد ہی پار کر ڈالی
زیست پریشاں‘جی بد گماں‘ حواس بد حواس ہو گیا
چلو اچھا ہی ہو گیا‘ جینا تو آ ہی گیا
غم میں رہ رہ کر غم کا احساس ہو گیا
کہ اب اندوہ بھی چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا
ہر نشاط سے اِس قدر دیوانہ یاس ہو گیا
لغزش ایسی ہوئی اُس بُت کو چاہنے کی
کہ مزہ دے گئی‘ طوفانِ غم راس ہو گیا