آئینے پر کبھی کتاب میں ہیں
اُس کی آنکھیں عجب عذاب میں ہیں
تھکتے پھرتے ہیں دُھوپ میں بچّے
تتلیاں سایہ گلاب میں ہیں
ایک کچّے گھڑے کی جُرات پر
کتنی طغیانیاں چناب میں ہیں
وہ ابھی تک ہے رُوبرو اپنے
ہم ابھی تک حصارِ خواب میں ہیں
اُس کی عادت ہے رُوٹھنا محسن
لوگ بے وجہ اضطراب میں ہیں