اُس کی آنکھوں سے ابتدا کی تھی
مُحبت نہ تھی مُحبت کی انتہاکی تھی
یُوں تو رکھا تھامُحبت میں تناسب لیکن
اپنی اوقات سے بڑھ کر ہم نے وفا کی تھی
رسم اُلفت تُو سلیقے سے پھر ادا کی تھی
میری وفاسےتو بڑھ کراس نےجفا کی تھی
زمانے والو کیوں ہم پے اُنگلیاں اُٹھاتے ہو
مُحبت جُرم ہے کیا ہم نے یہ خطا کی تھی
بُجھے چراغ جلا کر بُہت دُعا کی تھی
یوں آندھیوں نے بُہت تیز پھر ہوا کی تھی
نہ تُم نے مانگا ہمیں اپنی دُعاؤں میں مگر
ہم نے تو رب سے فقط تیری التجا کی تھی
اُس کی آنکھوں سے ابتدا کی تھی
مُحبت نہ تھی مُحبت کی انتہاکی تھی