کروڑوں چہرے
اور ان کے پیچھے
کروڑوں چہرے
یہ راستے ہیں کہ بِھڑ کے چَھتّے
زمین جسموں سے ڈھک گئی ہے
قدم تو کیا تِل بھی دَھرنے کی اب جگہ نہیں ہے
یہ دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں
کہ اب جہاں ہوں
وہیں سِمٹ کے کھڑا رہوں میں
مگر کروں کیا
کہ جانتا ہوں
کہ رُک گیا تو
جو بِھیڑ پیچھے سے آ رہی ہے
وہ مجھ کو پَیروں تَلے کُچل دے گی پیس دے گی
تو اب جو چلتا ہوں میں
تو خود میرے اپنے پَیروں میں آ رہا ہے
کسی کا سینہ
کسی کا بازو
کسی کا چہرہ
چلوں
تو اوروں پہ ظلم ڈھاؤں
رکوں
تو اوروں کے ظلم جھیلوں
ضمیر
تجھ کو تو ناز ہے اپنی منصفی پر
ذرا سُنوں تو
کہ آج کیا تیرا فیصلہ ہے