وفا کی اُمید پہ چل نکلے تھے ان راہوں پہ
کیا پتہ تھا قسمت میں بے وفائی لکھی ہے
دکھایا تھا دور سے اک دن اُس نے کنارہ
اب یہ کشتی میری بھنور میں پھنسی ہے
کیا مِلا اے ظالم دل میرا توڑ کے
اب یہ زندگی تجھ بن بے نام سی پڑی ہے
کون جانے کس کے دل میں کیا طوفاں پل رہے ہیں
ہر اک کو یہاں بس اپنی اپنی پڑی ہے
وہ بے وفا نکلے گا یہ سوچا نہ تھا
اسی بات سے تو چھُری دل پہ چلی ہے
غمِ بے وفائی میں جان نکل جائے گی اک دن
دلِ پُر درد سے یہ صدا میں سُنی ہے
اُس کی بھول بھلیوں میں دل کھو سا گیا تھا
دیکھو صورت بھی تو اس کی کتنی بھلی ہے
کیا گلہ عاجز جو بے وفائی وہ کر گیا
اپنی قسمت میں ہی لکھی بے وفائی ہے