اُن کو آنا تھا نہیں آۓ مگر جانے کیوں
اُٹھ گیا میری دُعاؤں سے اثر جانے کیوں
سنتے آۓ ہیں کہ ہر شب کی سحر ہوتی ہے
پر نہیں ہوتی مِری شب کی سحر جانے کیوں
خشک شاخوں پہ بھی پھوُٹ آتی ہے کونپل اِک دن
زیست میری رہی بے برگ و ثمر جانے کیوں
عمرُ بھر ساتھ نبھانے کا جسے دعویٰ تھا
لوٹ کر اُس نے نہ لی میری خبر جانے کیوں
اُ نگلیوں سے نہ چنےُ تم نے ہمارے آ نسوُ
خاک میں ملتے رہے لعل و گہر جانے کیوں
آ نکھ کھلتے ہی عجب بات مِرے ساتھ ہویٔی
گمُ ہوا پھر مرے خوابوں کا نگر جانے کیوں
سب کی قسمت میں تھا ساحل پہ اُترنا عذراؔ
میرے حصے میں ہی آیا تھا بھنور جانے کیوں