اُن کے جنو ں میں ایسے گرفتار ہو گئے
ہر شخص ہی سے بر سرِ پیکار ہو گئے
بارش کا ڈر انھیں تھا جو اہل مکان تھے
مدُت سے ہم تو بے در و دیوار ہو گئے
خود اُن کی زندگی تو اندھیروں میں گمُ ہویٔی
دُ نیا میں روشنی کا جو مینار ہو گئے
خوابوں کے وہ قلعے جو تراشے تھے ذہن نے
آندھی کے زور سے وہی مسمار ہو گئے
جب رُک گئے تو وقت کی نبضیں بھی تھم گئیں
جو چل پڑے تو وقت کی رفتار ہو گئے
رفعتؔ ملی ہیں راہ میں دُشواریاں بہت
سچا ئیوں کے جب سے پرستار ہو گئے