اِک نہ اِک روز تو رخصت کرتا
مجھ سے کتنی ہی محبت کرتا
سب رُتیں آ کے چلی جاتی ہیں
موسم غم بھی تو ہجرت کرتا
بھیڑیے مجھ کو کہاں پا سکتے
وہ اگر میری حفاظت کرتا
میرے لہجے میں غرور آیا تھا
اس کو حق تھا کہ شکایت کرتا
کچھ تو تھی میری خطا، ورنہ وہ کیوں
اس طرح ترکِ رفاقت کرتا
اور اُس سے نہ رہی کوئی طلب
بس میرے پیار کی عزت کرتا