میں پردیس جا رہا تھ
ماں نے کہا اپنا خیال رکھنا
بابا نے کہا بڑا آدمی بن کر دیکھنا ہے تجھے
پھر میں نے کہا اب تو شہر جا رہا ہوں
پڑھ لکھ کے بڑا آدمی بننا ہے
بابا کا سہارا بننا ہے
ماں کا خیال رکھنا ہے
لوٹونگا جب تو میرا استقبال ہوگ
گاوں بھر میں میرا چرچا ہوگ
پھر جب میں شہر میں پہنچ
سب کچھ میرے لیے نیا نیا سا تھ
شہر کے لوگوں سے زرا خوف بھی تھ
ستاتی ہوئی سب کی یاد بھی تھی
وقت یوں ہی گزرتا گی
پھر اک روز نہ جانے شہر کے لوگوں کو کیا ہو
زرا سی بات تھی مجھ سے بہت الجھنے لگے
میں پریشان سا ہو کر سب کو دیکھنے لگ
چند ہی لمحوں میں لوگ درندے سے بن گئے
پھر سب نے مل کر مجھ پر حملہ کر دی
میں خود کو بچا نہ سکا چیختا چلاتا رہ
لوگوں کا حجوم بڑھتا رہا کوئی بچانے آنہ سک
میری ہمت بھی اب جواب دینے لگی
میں اس قدر درندوں کے چنگل میں پھنس گی
اپنے ہی خون میں مجھ کو نہلا دیا گی
زندگی کی بازی ہار گی
ماضی کا قصہ بن گی
پھر میری جگہ میرا جنازہ لوٹ
جو کہا سچ ہوا لوگ بھی آئے
مگر...! میں بابا کا سہارا نہ بن سک
ماں کا خیال رکھنے والا نہ بن سک
میں نے کہا تھا جو 'من-تو' کر نہ سک
بابا مجھے معاف کردین
ماں مجھے معاف کرینا..