Add Poetry

اِک پردیسی کا قتل

Poet: Muntazir Ayub By: Muntazir Ayub, Karachi

میں پردیس جا رہا تھ
ماں نے کہا اپنا خیال رکھنا
بابا نے کہا بڑا آدمی بن کر دیکھنا ہے تجھے
پھر میں نے کہا اب تو شہر جا رہا ہوں
پڑھ لکھ کے بڑا آدمی بننا ہے
بابا کا سہارا بننا ہے
ماں کا خیال رکھنا ہے
لوٹونگا جب تو میرا استقبال ہوگ
گاوں بھر میں میرا چرچا ہوگ
پھر جب میں شہر میں پہنچ
سب کچھ میرے لیے نیا نیا سا تھ
شہر کے لوگوں سے زرا خوف بھی تھ
ستاتی ہوئی سب کی یاد بھی تھی
وقت یوں ہی گزرتا گی
پھر اک روز نہ جانے شہر کے لوگوں کو کیا ہو
زرا سی بات تھی مجھ سے بہت الجھنے لگے
میں پریشان سا ہو کر سب کو دیکھنے لگ
چند ہی لمحوں میں لوگ درندے سے بن گئے
پھر سب نے مل کر مجھ پر حملہ کر دی
میں خود کو بچا نہ سکا چیختا چلاتا رہ
لوگوں کا حجوم بڑھتا رہا کوئی بچانے آنہ سک
میری ہمت بھی اب جواب دینے لگی
میں اس قدر درندوں کے چنگل میں پھنس گی
اپنے ہی خون میں مجھ کو نہلا دیا گی
زندگی کی بازی ہار گی
ماضی کا قصہ بن گی
پھر میری جگہ میرا جنازہ لوٹ
جو کہا سچ ہوا لوگ بھی آئے
مگر...! میں بابا کا سہارا نہ بن سک
ماں کا خیال رکھنے والا نہ بن سک
میں نے کہا تھا جو 'من-تو' کر نہ سک
بابا مجھے معاف کردین
ماں مجھے معاف کرینا..

Rate it:
Views: 850
18 Jan, 2018
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets