آئینہ

Poet: مرزا عبدالعلیم بیگ By: Mirza Abdul Aleem Baig, Hefei, Anhui, China

آئینہ بھی اب بولنے لگا ہے
جب بھی میں گزرتا ہوں اپنے کمرے سے
آتے جاتے مجھ سے پوچھتا ہے
یہ مجھ سے باتیں کرتا ہے
یہ میرے حالات پہ نکتہ چینی کرتا ہے
بلکل ایسے جیسے وہ جائزہ لے رہا ہو میرا
’کہاں گئی وہ مُسکراہٹ تیری؟‘
’ تیرے ماتھے پر شکن گہرے کیوں ہیں؟‘
’آنکھوں کی شرارت کدھر گئی؟‘
’وہ منچلا سا دل کہاں رہ گیا؟‘
کبھی تو بے تکلفی سے پوچھتا ہے
’ایسا کیا ہے جو کھو گیا ہے؟‘
’کوئی تجھ سے روٹھ گیا ہے؟‘
’کیسی کا انتطار ہے کیا؟‘
’کوئی دل توڑ گیا کیا؟‘
’کوئی تنہا چھوڑ گیا کیا؟‘
’کیسی کے وعدے ستاتے ہیں کیا؟‘
’کیسی کی بے وفائی تڑپاتی ہے کیا؟‘
اس آئینے کو بہت خاموش کروایا
چپ تو ہو جاتا ہے مگر دیکھتا رہتا ہے
خدا جانے یہ آئینہ اتنا پوچھتا کیوں ہے؟
خدا جانے یہ آئینہ اتنا بولتا کیوں ہے؟

Rate it:
Views: 595
24 Nov, 2020
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL