اٹھائے پھرتا کہاں تک ترے نشیلے ہاتھ

Poet: rafiq sandeelvi By: rashid sandeelvi, islamabad

اٹھائے پھرتا کہاں تک ترے نشیلے ہاتھ
خود اپنے جسم پہ تھے بوجھ میرے ڈھیلے ہاتھ

عجب نہیں کہ یہ رسم حنا بھی اٹھ جائے
حنوط کر کے رکھو دلہنوں کے پیلے ہاتھ

سدا محیط رہیں بستیوں پہ خشک رتیں
کسی بھی سر پہ نہ رکھے ہوا نے گیلے ہاتھ

گرا زمین پہ پرچم تو علم تک نہ ہوا
محاذ جنگ پہ گنتے رہے قبیلے ہاتھ

افق پہ آج کوئی چودویں کا چاند نہیں
بلا رہے ہیں کسے پانیوں کے نیلے ہاتھ
 

Rate it:
Views: 585
28 Sep, 2011