باز دفعہ تو یونہی دل میں خیال اٹھتے ہیں
کچھ ہوا بھی نہیں طرح طرح کے سوال اٹھتے ہیں
بچارے خواہ مخواہ چکی میں پستے رہے
خبر ہے تم کو کیا وہ بھی کر کے ملال اٹھتے ہیں
خیال آتے ہیں دل میں لہر اٹھتی ہے
لہر اٹھتے ہی آنکھوں میں لال اٹھتے ہیں
مانتا ہوں کہ اب نہ کریں گے کبھی شکوہ قلزم
کوشش کی کیا کریں غبار بہرحال اٹھتے ہیں