زندگانی کی بھول بھلیوں سے
مشینوں کے گڑگڑاتے پہیوں سے
نکل کر رات کل جو نکلا میں
تو نکلا باغ کے اک کونے میں
اور ملاقات ہو گئی وہاں پہ
اداس اداس چند پھولوں سے
وہ سب شبنم سے آنسو رو رہے تھے
کسی صدمے سے پاگل ہو رہے تھے
میں نے ہولے سے پوچھا اک گل سے
میں بھی جانوں معاملہ کیا ہے ؟
پھول بولا یہ تو نہ سمجھے گا
قصہ ہے یہ ہمارے باغباں کا
جو مسیحا ہے ہمارے جہاں کا
روز آتا ہے وہ اس گشن میں
اور جب آتا ہے تو اس چمن میں
جتنی کلیاں ہیں جھوم اٹھتی ہیں
جتنے غنچے ہیں کھل سے جاتے ہیں
مگر کل رات عجب منظر تھا
اسکی آنکھوں میں ایک محشر تھا
دھیما دھیما سا لگ رہا تھا مجھے
ٹھہرا ٹھہرا سا لگ رہا تھا مجھے
کبھی فولاد کی مانند تھا جو
ٹوٹا ٹوٹا سا لگ رہا تھا مجھے
جسکے لہجے میں عجب جادو تھا
سہما سہما سا لگ رہا مجھے
جسکی آنکھوں میں جگنو رہتے تھے
بجھا بجھا سا لگ رہا تھا مجھے
جسکی شوخی کے بہت چرچے تھے
کھویا کھویا سا لگ رہا تھا مجھے
جس پہ خوشیوں کو ناز رہتا تھا
رویا رویا سا لگ رہا تھا مجھے
ہر طرف روشنی تھی جسکے طفیل
سایہ سایہ سا لگ رہا تھا مجھے
جسکا ہر جملہ شاعرانہ تھا
پھیکا پھیکا سا لگ رہا تھا مجھے
جو سہارا تھا بہتی دھارا کا
ڈوبا ڈوبا سا لگ رہا تھا مجھے
وہ تو غنچوں میں کھویا رھتا تھا
غم کے سائے سے آشنا نہ تھا
حسن پہ اتنا ناز تھا اسکو
ہر سمے چاند بنا رہتا تھا
جھیل سی آنکھوں میں نہ جانے کوئی
کیسے وہ بے چراغ خواب اتر آئے تھے
کنول سے جھلملاتے روح پرور ہونٹوں پہ
کیسے مسلے ہوئے گلاب اتر آئے تھے
ہر سمے خوشبوؤں میں رہتا تھا
تنہا تنہا سا لگ رہا تھا مجھے
جسکی مٹھی میں لفظ بستے تھے
قصہ قصہ سا لگ رہا تھا مجھے
جس سے روحیں سیراب ہوتی تھیں
چھلکا چھلکا سا لگ رہا تھا مجھے
بات سن کر گلاب کی میں نے
گرتے اشکوں کو روکنا چاہا
پھول نے دیکھا تو حیران ہوا
مجھ سے کہنے لگا اداسی میں
میں تو شب کی سنا رہا تھا تمہیں
ایک ببتا بتا رہا تھا تمہیں
پھول کو ہاتھ سے سہلاتے ہوئے
کہا اے پھول کوئی بات نہیں
باتیں سن کر تمہاری اے ہمدم
میری آنکھیں جو چھلک آئی ہیں
اس میں کوئی تمہارا دوش نہیں
یہ نہ کہنا کہ مجھے ہوش نہیں
رات دیکھا تھا جسے تو نے یہاں
مجھے بس اسکا کچھ پتا دے دے
کہاں سے آتا کہاں رہتا ہے
بس ذرا اتنا مجھے بتلا دے
جانے کیا بات ہے اس اجنبی میں
اپنا اپنا سا لگ رہا ہے مجھے