اپنا شمار تھوڑی ہے
Poet: اسماء طارق By: Asma Tariq, Gujrat معجزے ہوا کرتے ہیں اسی دنیا میں
پر ایسوں میں اپنا شمار تھوڑی ہے
جن کے لوٹنے کی مانگتے تھے دعا
وہ چلے تو آئے ہیں اب یہ آہ کس لیے
زخم دنیا بھی رکھتی ہے ہرے
سارا دارومدار انہی پر تھوڑی ہے
سینچ کر رکھتے ہیں ہم غم بھی اپنے
مجال جو بانٹیں،اتنے سخی تھوڑی ہیں
سوچتا ہوں وہ آ کر سب ٹھیک کر دیں
پر وہ اللہ دین کا چراغ تھوڑی ہیں
ہاں کہیں تو صحیح گر نہ کر دیں تو خفا
آپ بھی کمال ہو ،ہم مشین تھوڑی ہیں
دوسروں پر اٹھاتی ہے انگلی دنیا ایسے
جیسے بھول گئی ہو ،خود انسان تھوڑی ہے
اکثر غلطی کر ہی جاتے ہیں، معاف کیجئے گا
انسان ہیں ،خطاکار ہیں،فرشتہ تھوڑی ہیں
اہل زبان تو ہمیشہ سے ہی راج کرتے ہیں دلوں پر
پر ان میں آس ہم سے زبان دراز تھوڑی ہیں
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






